Add To collaction

28-Jun-2022 لیکھنی کی کہانی - مایوسی

اللہ تعالی بنی نوع انسان کو اپنی عبودیت و بندگی کیلیے  معرضِ وجود میں لایا ہے۔موت وحیات کی تخلیق باری تعالی نے اس لیے کی  ہےتاکہ وہ آزمائے کہ کون زیادہ بہتر عمل کرتا ہے،کون اس کے امتحانات و ابتلاءات میں کامیاب و سرخ رو ہوتا ہے اور کون ناکام و نا مراد ؟انسانی زندگی کو اللہ تعالی  نے خوشی و غم کا سنگم بنایا ہے۔ اس میں امید و بیم،دکھ و سکھ،قلق و راحت اور نشیب و فراز کا  لا متناہی سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔حلاوتِ ایمان سے آشنا افراد سکھ دکھ کے سارے لمحات کو خندہ پیشانی کے ساتھ گزار لیتے ہیں۔ مسرت و شادمانی کے وقت اللہ  کا ناشکر بجالاتے ہیں اور حزن و ملال کے موقعے پر صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جبکہ دولتِ ایمان کی شیرینی سے محروم اشخاص خوشی کے لحظات سے تو خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن غم کا  ناگوار سایہ جب ان کی زندگی پر پڑتاہے تو تلملا اٹھتے ہیں۔ ان کے لبِ نا شکرگزار پر زندگی سے نالانی و پریشانی کے گلے شکوے رقص کناں ہو جاتے ہیں۔ وقتی مصیبت پر صبر وثبات کا مظاہرہ کرنے کی بجائےیاس و قنوط کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور اللہ کی وسعتِ رحمت سے نا امید ہوکر آخرت کو  برباد کرنے کےساتھ ساتھ دنیاوی زندگی کو بھی موت سے بد تر اور جہنم زار بنا لیتے ہیں۔

ذیل میں مایوسی کے اسباب،اثرات اور اس مذموم صفت سے  دور رہنے کے طریقۂ کار پر خامہ فرسائی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مایوسی کے چند اسباب :

1-اللہ تعالی کی وسعتِ رحمت سے لا علمی :

 اللہ تعالی کی وسیع رحمت،بے پایاں احسانات و انعامات اور لا  محدود  اکرامات و نوازشات سے جہالت و لا علمی کی بنا پر بندہ  مصائب و آلام، شدائد و مشکلات  اور آفات و بلیات کے وقت نا امیدی کا شکار ہوجاتا ہے۔حالانکہ اللہ کی ذات پاک قادر مطلق ہے وہ جو کام کرنا چاہے  اس کیلیے اسے صرف لفظ  ” کن ” ہی کافی ہے۔اگر وہ کسی کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تو  نجات دینے والا بھی وہی ہے۔اس  کا شامیانۂ رافت تمام دنیا پر سایہ فگن ہے۔ اس کی ردائے رحمت نے کل عالم کو اپنی وسعتوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس کا فرمان ہے :

[رَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْئٍ]  (الأعراف : 156)
"میری  رحمت تمام  چیزوں پر محیط ہے”۔

لا ریب اس کی رحمت ہمہ گیر ہے اور اس عالم آب و گل میں اس کا فیضان  اس قدر عام ہے کہ اس کو حیطۂ شمار میں لانا اور اس کی وسعتوں کی پیمائش کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے  مصیبت زدہ انسان کو چاہیئے کہ وہ اللہ کی وسعتِ رحمت پر کامل یقین رکھے اور اس کی ہمہ گیر رحمت کی صحیح معرفت حاصل کرنے کیلیے بھر پور تگ و تاز کرے۔

2- خوف الہی میں غلو و افراط :

بندہ  بتقاضائے بشریت کسی عظیم گناہ  یا شدید جرم کا  ارتکاب کرتا ہے۔ اس کے نہاں خانۂ دل میں اپنے جرم و گناہ کا احساس بھی ہوتا ہے۔ دلی اعتبار سے پشیماں ہوکر  گناہوں سے تائب بھی ہونا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اپنے  گناہ کی سنگینی اور جرم کی شدت  کی بنا پر اللہ کے خوف میں غلوآمیزی و افراط کا شکار ہوکر یاس و قنوط میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کیلیے بخشش کے دروازے مسدود ہو چکے ہیں۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کوئی  شخص اللہ  کا اس قدر  غلو آمیزانہ خوف نہ کھائے کہ خوف کی شدت اسے قنوط میں مبتلا کردے اور اللہ کی رحمت سے نا امید بنادے۔اس لیے کہ ایسا خوف مذموم ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوف الہی کی حد یہ ہے کہ وہ تمہیں معاصی و سیئات کے ارتکاب سے روک دے۔خوف الہی کی اس حد کو تجاوز کرنا درست نہیں۔ نیز ایسا خوف جو مایوسی میں مبتلا کردے در اصل اللہ کی رحمت کے ساتھ بے ادبی ہے۔
-قنوطی افراد کی صحبت :

بسا اوقات  ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے۔اور اسے اپنے رب پر بھروسہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نہ ایک دن  وہ اس پر نظر کرم ضرور فرمائےگا۔دیر ہی سے صحیح اس کے سر پر منڈلانے والی  مصیبت کی مہیب گھٹا ضرور چھٹےگی۔لیکن اسے ایسے لوگوں کی معیت و صحبت میسر ہوتی ہے جو ہمیشہ یاس و قنوط کی وادیوں میں بھٹکنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ کی رحمت و مغفرت کا ذکر کم اس کے غیظ و غضب کا ذکر ہمیشہ ان کے لبوں پر رہتا ہے۔نتیجتاً اس قنوطیت زدہ صحبت کے برے اثرات اس کےنقشۂ ذہن پر دیر سویر مرتب ہو ہی جاتے ہیں۔
-قلتِ صبراور حصول نتائج کی جلدی :

مصائب و آلام  پر صبروتحمل انسان کے اندر امید کی کرنیں روشن رکھتا ہے۔اس کے اندر شدائدو مشکلات سے نبردآزمائی کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔صابر و متحمل شخص  اللہ کی رحمت سے مایوس ہوتاہے اور نہ ہی نتائج کے حصول کیلیے جلدی بازی سے کام لیتا ہے۔کیونکہ  جلدی بازی  پیمانۂ صبر کو بہت جلد لبریز کردیتی ہے۔ پھر انسان صبر کا دامن ترک کرکے  شکستہ خاطر ہوجاتا ہے۔اس کے اندر نا امیدی کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔ اسی لیے ایک حدیث میں قبولیت دعا کی جلدی بازی سے منع کیا گیا ہے۔

"عن أبي هريرةَ أَنَّ رسولَ اللهِ ﷺ عليه وسلم قال:يُستَجابُ لأحدِكم ما لم يعجَل،يقول :دعوتُ فلم يُستجَبْ لي "(البخاري : 6340)
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تم میں سے کسی کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے، کہنے لگے کہ میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی”۔
- دنیا سے  دل کی  حدسے زیادہ وابستگی :

جب انسان کو دنیا کے مال و منال اور اسباب تعیش و تنعم سے  بہت زیادہ  لگاؤ ہوتا ہے تو راحت طلبی  اس کا لازمۂ حیات بن جاتی ہے۔ہمیشہ اسے سکون واطمینان،صحت و تندرستی،پرازاشتیاق طرز حیات اور پر شکوہ اسلوب زندگی کی خواہش ہوتی ہے۔راحت میں اترانا اور مصیبت میں نا امید ہونا اس کا شیوہ  بن جاتا ہے۔

اللہ تعالی نے فرمایا : [وَإِذَا أَذَقْناَ الناسَ رحمةً فَرِحُوْا بِھا وَإِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ بِماَ قَدَّمَتْ أَيْدِيْھُمْ إِذَا ھُمْ يَقْنَطُوْنَ] (الروم : 36)

"اور جب  ہم لوگوں کو رحمت کا مزہ چکھا تے ہیں تو وہ خوب خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں ان کےکرتوت کی وجہ سے کوئی برائی پہونچے تو ایک دم وہ محض نا امید ہو جاتے ہیں "۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :[قَالَ وَمَنْ يَّقْنُطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا القَوْمُ الضَّآلُّوْنَ] (الحجر :56)

"كہا اپنے رب تعالی کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں "۔
- نا امیدی کفر و شرک اور ہلاکت و ضلالت میں واقع ہونے کا سبب ہے:

اللہ کی رحمت کے فیوض سے نا امید شخص اپنی توحید کی حفاظت نہیں کرپاتا ہے۔اپنی حرماں نصیبی پر افسردہ خاطر ہوکر دکھ و درد کا  درماں کفر و شرک کے اڈوں میں تلاشنےلگتا ہے۔حالانکہ اسے لا محالہ اتنا ہی مل سکتا ہے جتنا اس کے نوشتۂ تقدیر میں ہے۔اس لیے اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا اپنے آپ کو ہلاکت و بربادی  کی کھائی میں ڈھکیلنا ہے۔اور اللہ تعالی نے اپنے آپ کو ہلاک کرنے سے منع فرمایا ہے۔

فرمان باری تعالی ہے : وَلَا تُلْقُوْا بِأَيْدِيْكُمْ إِلَى التَّھْلُكَةِ (البقرة : 195)

"اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو”۔

محمد بن سیرین رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :الإلقاء إلى التھلكة ھو القنوط من رحمة الله (معالم التنزيل :1/217)

یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا ہے۔

4- اذکار و عبادات میں کاہلی :

نا امیدی کےمضراثرات جب کسی کے ذہن و دماغ کے پردۂ اسکرین پر مرتب ہوتے ہیں تو وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں بھی فروگذاشت کا مرتکب ہو جاتا ہے۔بلکہ بسا اوقات  اعمال کے فوائد سے نا امید ہوکر طاعت و بندگی سے یکسر غافل ہوجاتا ہے۔

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : القانطُ آئسٌ من نفعِ الأعمالِ، ومن لازم ذالك تركھا (الزواجر :1/122)

یعنی مایوس آدمی چونکہ اعمال کے فائدے سے نا امید ہوتا ہے،اس لیے وہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔

5- معاصی و سیئات پر استمرار و مداومت :

ابو قلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الرجلُ يُصِيبُ الذنبَ فيقول :قد ھلكتُ،ليسَ لي توبةٌ،فَيَيْأَسُ من رحمةِ اللهِ،و ينھمك في المعاصي، فنھاھم الله تعالي عن ذالك،قال تعالى :[إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللهِ إلا القومُ الكافرون] (يوسف :87) (معالم التنزيل :1/217)

جب آدمی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ہلاک ہوگیا، میرے لیے توبہ نہیں، چنانچہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوکر گناہوں میں (مزید) منہمک ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے لوگوں کو ناامیدی سے منع فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:”یقیناً رب  کی رحمت سے کافر لوگ ہی نا امید ہوتے ہیں "۔

  نا امیدی کے مذکورہ بالا پانچ اور ان کے علاوہ دیگر مضر اثرات جب یاس وقنوط میں مبتلا آدمی کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں تو اس کی زندگی جہنم زار بن جاتی ہے۔سکون و اطمینان غارت ہوجاتا ہے،دائمی قلق و اضطراب میں گرفتار ہوجاتا ہے، ٹینشن، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی زد میں آکر مرغ نیم کشتہ  کی سی زندگی گزارتاہے۔زندگی سے زیادہ موت کی تمنا ہوتی ہے۔سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ  مایوسی کے ان جاں گسل حالات میں اکثر و بیشتر قنوطیت زدہ افراد خودکشی جیسے بزدلانہ اور حرام کام کا ارتکاب بھی کرلیتے ہیں۔ اور پھر نہ دنیا ملتی ہے  نہ آخرت۔اسی لیے شریعت اسلامیہ نے بڑی سختی کے ساتھ  مایوسی سے منع کیا ہے۔


طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   15
11 Comments

Khan

02-Jul-2022 06:47 PM

Nyc

Reply

Chudhary

01-Jul-2022 06:35 PM

Nyc

Reply

Reyaan

29-Jun-2022 07:45 PM

👏👏

Reply